جناب صدر، معزز سامعین!
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!

آج کی میری تقریر کا عنوان ہے “یوم مزدور”۔ یکم مئی دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کے لیے منایا جاتا ہے۔ یہ دن ان محنت کش افراد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مخصوص ہے، جو دن رات سخت مشقت کر کے ہماری زندگیوں کو آسان بناتے ہیں، ہماری معیشت کو سہارا دیتے ہیں، اور ہمارے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ محنت کرنے والے لوگ صرف روزی نہیں کماتے، بلکہ وہ ایک پوری قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے پسینے سے فصلیں لہلہاتی ہیں، عمارتیں بنتی ہیں، کارخانے چلتے ہیں اور شہروں کی رونقیں قائم رہتی ہیں۔

؎ محنت کشوں کے خون سے روشن ہے کارواں
؎ یہ لوگ ہیں جو قوم کا رکھتے ہیں آسرا

یومِ مزدور کی اصل روح یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو وہ مقام اور عزت دیں جس کے وہ حقیقی مستحق ہیں۔ اسلام نے بھی مزدور کو عزت کا مقام دیا ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہ ہے کہ “مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔” یہ فرمان محض ایک اصول نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ مزدور کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم بحیثیت قوم اپنے محنت کشوں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں؟ کیا ہم انہیں ان کا جائز حق دے رہے ہیں؟ کیا ہم ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی قدم اٹھا رہے ہیں؟ اگر ہم واقعی ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں مزدوروں کے حقوق کو ترجیح دینا ہو گی۔

؎ ہر ایک اینٹ جو دیوار میں نظر آتی ہے
؎ کسی غریب کی محنت کی داستاں کہتی ہے

یومِ مزدور صرف چھٹی کا دن نہیں، بلکہ ایک عہد ہے، ایک وعدہ ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کو نہیں بھولیں گے جو دھوپ، گرمی، سردی اور بارش میں کام کرتے ہیں۔ یہ دن ہمیں اپنی ذمہ داریاں یاد دلاتا ہے کہ ہم ان کے حقوق کی حفاظت کریں، ان کے مسائل پر آواز بلند کریں، اور ان کے لیے بہتر حالاتِ زندگی فراہم کریں۔

ہمیں اپنے بچوں کو بھی یہ سکھانا ہو گا کہ عزت صرف مال و دولت سے نہیں بلکہ محنت سے ہے۔ مزدور اگر محنت کرتا ہے تو وہ قوم کے ماتھے کا جھومر ہے۔

؎ جو ہاتھ محنت میں رہتے ہیں مصروف
؎ وہی مقدر بدلنے کا فن رکھتے ہیں

والسلام۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *